ریاستی پولیس کے ذریعے مرکزی جانچ ایجنسیوں کے ملازمین کی گرفتاری کے معاملے پر سپریم کورٹ کا اہم تبصرہ سامنے آیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ ایسے معاملات میں مناسب توازن بہت ضروری ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ یہ ضروری ہے کہ کوئی ایسی کارروائی نہ کی جائے جس سے مرکزی ملازمین کے حقوق کی خلاف ورزی ہو۔ ساتھ ہی بدعنوانی کے معاملات کی جانچ کے دوران ریاستی پولیس کے اختیارات پر کوئی اثر نہ پڑے۔
جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس اُجول بھوئیاں نے تمل ناڈو پولیس کے ذریعہ ای ڈی کے افسر کی گرفتاری کے حوالے سے سماعت کے دوران یہ باتیں کہیں۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ ہر سطح پر انصاف کا عمل قائم رکھنا انتہائی اہم ہے اور کسی بھی ادارے کے اختیارات کا غلط استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔
ای ڈی افسر کے خلاف بدعنوانی کا الزام ہے۔ عدالت نے کہا کہ ملزم کو بھی منصفانہ جانچ کا حق ہے۔ عدالت نے معاملے میں کہا کہ یہ مرکز بنام ریاست کا کلاسک کیس ہے۔ ہم وفاقی ڈھانچے کو وسیع پیمانے پر دیکھیں گے اور پھر اس طرح کے معاملوں کی جانچ کے لیے ایک نظام بنائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے اگلے حکم تک گرفتار ای ڈی افسر کو عبوری ضمانت دے دی۔
یہ معاملہ تمل ناڈو کا ہے۔ جہاں ایک ای دی افسر کو 20 لاکھ روپے رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھ پکڑا گیا تھا۔ تمل ناڈو کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل امت آنند تیواری نے سپریم کورٹ میں یہ جانکاری دی۔ انہوں نے بتایا کہ اس معاملے میں بدعنوانی مخالف ایکٹ کے تحت جانچ بھی پوری ہونے والی ہے۔
حالانکہ ای ڈی کے ذریعہ سپریم کورٹ کا رخ کرنے کی وجہ سے ریاستی پولیس چارج شیٹ فائل کرنے کے لیے انتظار کر رہی ہے۔ اس پر جب ملزم افسر کے وکیل نے مداخلت کرنی چاہی تو تیواری نے اعتراض ظاہر کیا۔ انہوں نے وکیل کو یہ کہتے ہوئے روک دیا کہ ملزم یہ طے نہیں کرے گا کہ کون سی ایجنسی معاملے کی جانچ کرے گی۔ حالانکہ بنچ نے یہ کہا کہ ملزم بھلے ہی جانچ ایجنسی طے نہیں کر سکتا لیکن اسے منصفابہ جانچ کا پورا حق حاصل ہے۔
0 Comments