Hot Posts

6/recent/ticker-posts

مہاراشٹر کے نتائج میں فرقہ پرستی اور پیسوں کا دخل... سید خرم رضا

جن 2 ریاستوں کے نتائج کا بہت بے صبری سے انتظار تھا وہ سامنے آ گئے ہیں۔ ایک ریاست میں این ڈی اے اتحاد کو اور دوسری ریاست میں انڈیا نامی اتحاد کو عوام نے حکومت سازی کے لئے منتخب کیا ہے۔ ضمنی انتخابات میں جہاں مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس نے جھنڈے گاڑے ہیں، وہیں زیادہ تر ریاستوں میں این ڈی اے اتحاد نے بازی ماری ہے۔ اتر پردیش کے نتائج کا سب کو پولنگ والے دن ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھنے جا رہا ہے۔

مبصرین اپنی اپنی رائے دیں گے۔ کوئی کہے گا کہ مہاراشٹر میں لاڈلی بہن یوجنا کی کامیابی کی وجہ سے این ڈی اے اتحاد کو کامیابی ملی ہے، جھارکنڈ کے لئے بھی خواتین کے لئے مالی اسکیم اور کلپنا سورین کے سر پر سہرا باندھا جائے گا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ان اسکیموں کا فرق پڑتا ہے اور کہیں نہ کہیں ہندوستانی عوام غربت اور مہنگائی کی وجہ سے پیسوں میں بہہ جاتی ہے۔ ان اسکیموں کے باوجود پارٹیوں اور امیدواروں کے ذریعہ پیسے دینے کے الزام بھی لگتے رہے ہیں۔ پیسے کا کردار رائے دہندگان تک محدود نہیں رہتا بلکہ یہ ان لوگوں کو بھی دیا جاتا ہے جو عوام کی رائے بدلنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔مہاراشٹر میں اگر عوام کی یہ رائے حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے، لیکن مہاراشٹر میں جہاں ’بنٹو گے تو کٹو گے‘ اور ’ایک ہیں تو سیف ہیں‘ نعرہ نے گونج مچائی، وہیں اس کے رد عمل میں مولانا سجاد نعمانی نے بھی مہا وکاس اگھاڑی یعنی انڈیا نامی اتحاد کے لئے ووٹوں کی بھیک مانگی۔ مولانا سجاد نعمانی کا ایم وی اے کے لئے ووٹوں کی بھیک مانگنے کا بھی فائدہ ایم وی اے کو کم اور این ڈی اے یعنی مہایوتی کو خوب کھل کر ہوا، جہاں سَنگھ نے مذہب کی بنیاد پر ووٹوں میں نہ صرف اضافہ کیا بلکہ نظریاتی طور پر اکٹھا ہوئے لوگوں کو بھی منتشر کرنے کا منصوبہ بنایا۔

مسلمانوں کی اس وقت حالت یہ ہے کہ کوئی بھی ان کو کٹورے میں پانی دکھا بھر دے وہ اس کے نہ صرف دیوانے ہو جاتے ہیں بلکہ اس کو ڈھیر ساری دعاؤں سے نواز دیتے ہیں، اور بے چارے اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ان کے اس عمل کا فائدہ کس کو ہوگا، اور یہ کٹورے کا پانی ان کو ملے گا بھی یا نہیں۔ اس حالت کا فائدہ مولانا سجاد نعمانی نے بھی اٹھایا اور مہاراشٹر جیسی ریاست، جو پیسہ کے علاوہ فرقہ پرستی کے لئے بھی جانی جاتی ہے، انہوں نے ریاست میں ایم وی اے کو ووٹ دینے کے لئے پریس کانفرنس کر دی۔ جو بات ایک عام آدمی کو سمجھ آ جاتی ہے کہ ان کی پریس کانفرنس کا کس کو فائدہ ہوگا، وہ بات مولانا نعمانی کو نہیں سمجھ آئی، اور اگر ایسے شخص کو یہی علم نہیں کہ فائدہ کس کو ہوگا تو اس طبقہ کو اسے اپنا رہبر ماننے کی ضرورت کیا ہے۔ اگر انڈیا نامی اتحاد کو بھی اپنے مخالفین کی طرح کی سیاست کرنی ہے تو پھر اس اتحاد کی ضرورت کیا ہے؟
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ انتخابات میں پیسہ کا دخل بہت بڑھ گیا ہے اور الیکشن کمیشن کا اس مسئلے سے نظر بچانا پیسہ کے دخل کو مزید بڑھا رہا ہے۔ کارپوریٹ گھرانے پہلے بھی اپنی مرضی کی حکومتوں کے لئے بیٹنگ کرتے رہے ہیں، لیکن وہ اس آگ سے دوری بنا کر رکھتے تھے، اور تمام سیاسی پارٹیوں کی مدد کرتے تھے۔ لیکن اب جس انداز سے کارپوریٹ گھرانے اپنے فائدے کے لئے کسی بھی حد تک جاتے ہیں، وہ تشویشناک ہے۔ مہاراشٹر میں پیسوں کا کھیل کسی سے چھپا بھی نہیں ہے اور ایک پارٹی کے قومی رہنما پر تو پیسوں کے تقسیم کرنے کا الزام بھی لگا جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ آگ کہاں تک پھیل گئی ہے۔ غربت اور مہنگائی اس قدر ہے کہ عوام کو تھوڑی راحت بھی بہت لگتی ہے۔

مہاراشٹر انتخابات کے نتائج پر کچھ بھی کہیں لیکن مولانا اور یوگی کے ذریعہ پھیلائی گئی فرقہ پرستی اور پیسوں کے ننگے ناچ نے آگ بہت دور تک پھیلا دی ہے، اور اگر الیکشن کمیشن نے ان دونوں مسائل پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا تو اس آگ کو پھیلنے سے روکا نہیں جا سکتا۔ الیکشن کمیشن کو سخت فیصلے لینے سے پہلے کمیشن اور حکمراں جماعت میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔

Post a Comment

0 Comments