اس خلائی اسٹیشن کا مقصد سائنسی اختراع کے نئے عہد کی شروعات کرتے ہوئے بایو ٹیکنالوجی کو خلائی ٹیکنالوجی کے ساتھ مربوط کرنا ہے۔ ایم او یو کئی اہم پہلوں کا خاکہ تیار کرتا ہے۔ اس میں ہندوستانی خلائی اسٹیشن کا قیام اور بایو3 (معاشیات، ماحولیات اور روزگار کے لیے بایو ٹیکنالوجی) پالیسی شامل ہے۔
حکومت کے مطابق دونوں کے درمیان تعاون مائیکرو گریویٹی ریسرچ، اسپیس بایو ٹیکنالوجی، اسپیس بایو مینوفیکچرنگ، بایو ایسٹرونکس اور اسپیس بایولاجی جیسے شعبوں پر مرکوز ہوگا۔ اسے ممکن بنانے کے لیے اسرو کے چیئرمین ایس سومناتھ اور بایو ٹیکنالوجی محکمہ کے سکریٹری ڈاکٹر راجیش گوکھلے کی جتیندر سنگھ نے ستائش کی۔
جتیندر سنگھ نے کہا کہ خلائی اسپیس اسٹارٹ اَپس کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔ تقریباً 300 اسٹارٹ اَپس اب خلائی معیشت میں تعاون دے رہے ہیں۔ اس شراکت داری سے قومی انسانی خلائی پروگرام کو فائدہ ملنے اور صحت تحقیق، جدید فارماسیوٹیکلس، بہتر کچرا مینجمنٹ، ری سائیکلنگ کے لیے بایو پر مبنی ٹیکنالوجی میں اختراع کو بڑھاوا ملنے کی امید ہے۔
مرکزی وزیر ڈاکٹر سنگھ نے پہلی بار ڈی این اے ویکسین تیار کرنے میں بایو ٹیکنالوجی محکمہ کے کردار کی بھی ستائش کی۔ اس سے ہندوستان کی سائنسی صلاحیتوں کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے گا۔ ستمبر میں مرکزی کابینہ نے چاند پر چوتھے مشن کو منظوری دی اور 2028 تک ہندوستانی خلائی اسٹیشن (بی اے ایس) کی پہلی یونٹ کی تعمیر کے لیے بھی ہری جھنڈی دی تھی۔
قابل ذکر ہے کہ حکومت نے 2035 تک ایک ہندوستانی خلائی اسٹیشن اور 2040 تک چاند کی سطح پر ایک ہندوستانی کے اترنے کا تصور کیا تھا۔ اس ہدف کی طرف بڑھنے کے لیے کابینہ نے بی اے ایس-1 کے پہلے ماڈیول کے فروغ کو منظوری دی تھی۔
0 Comments